ابن ابی شیبہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1711
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قد ووزن جی جی حدید عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : قد ووزن جی جی حدید سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ اللَّہَ یَقْبَلُ الصَّدَقَۃَ ، وَیَأْخُذُہَا بِیَمِینِہِ فَیُرَبِّیہَا لِصَاحِبِہَا ، کَمَا یُرَبِّی أَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ، أَوْ فَصِیلَہُ حَتَّی إنَّ اللُّقْمَۃَ لَتَصِیرُ مِثْلَ أُحُدٍ ، وَتَصْدِیقُ ذَلِکَ فِی کِتَابِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ : {ہُوَ الذی یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ} ، وَ{یَمْحَقُ اللَّہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ} ۔ (ترمذی ۶۶۲۔ ابن خزیمۃ ۲۴۲۷)
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایـا : بیشک اللہ تعالیٰ صدقہ کو قبول کرتا ہے اور اسے داہنے ہاتھ سے لیتا ہے اور اسکو بڑھاتا ہے صدقہ دینے والے کیلئے۔ جیسا کہ تم مـیں سے کوئی ایک تربیت کرتا ہے (بڑھاتا ہے) چھوٹے بچے یـا کنبے کو، یہاں تک کہ ایک لقمہ صدقہ کا (ثواب) احد پہاڑ کے برابر کردیتا ہے اور اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات سے بھی ہوتی ہے، اللہ فرماتے ہیں کہ وہی اللہ ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کے صدقات کو لیتا ہے (قبول کرتا ہے) دوسری جگہ ارشاد فرمایـا : اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 699
حَدَّثَنَا ہُشَیْم ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃ ، قَالَ : قُلْتُ لابْنِ عَبَّاسٍ : إنَّ أبی رَجُل جَلاَّبًا یَجْلُبُ الْغَنَمَ ، وَإِنَّہُ لَیُشَارِکُ الْیَہُودِیَّ ، وَالنَّصْرَانِیَّ ، قَالَ : لاَ یُشَارِکُ یَہُودِیًّا ، وَلاَ نَصْرَانِیًّا ، وَلاَ مَجُوسِیًّا ، قَالَ : قُلْتُ : لِمَ ؟ قَالَ : لأَِنَّہُمْ یُرْبُونَ وَالرِّبَا لاَ یَحِلُّ۔
ابو حمزہ کہتے ہیں کہ مـیں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیـا کہ مـیرے والد بکریوں کے تاجر ہیں وہ بعض اوقاتی یہودی یـا عیسائی کو اپنا شریک بناتے ہیں، کیـا ایسا کرنا ٹھیک ہے ؟ انہوں نے فرمایـا کہی یہودی، عیسائی یـا مجوسی کو شریک نہ بناؤ ۔ مـیں نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایـا کہ وہ سود کا لین دین کرتے ہیں حالانکہ سود حرام ہے۔
(٢٠٣٥٢) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ مشرک سے مشارکت کھیتی باڑی اور ایسے امور مـیں درست نہیں جن مـیں وہ غائب ہو کیونکہ مشرک کے دین مـیں سود اور خنزیر کی قیمت حلال ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 704
حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لاَ تَصْلُحُ مُشَارَکَۃُ الْمُشْرِکِ فِی حَرْثٍ ، وَلاَ بَیْعٍ یَغِیبُ عَلَیْہِ ، لأَنَّ الْمُشْرِکَ یَسْتَحِلُّ فِی دَیْنِہِ الرِّبَا ، وَثَمَنَ الْخِنْزِیرِ۔
حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مشرک سے مشارکت کھیتی باڑی اور ایسے امور مـیں درست نہیں جن مـیں وہ غائب ہو کیونکہ مشرک کے دین مـیں سود اور خنزیر کی قیمت حلال ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 760
حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی مَعْبَدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَیْنَ الْعَبْدِ وَبَیْنَ سَیِّدِہِ رِبًا ، وکان یبیع ثمرتہ من غلمانہ قبل أن تطعم۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ آقا اور اس کے غلام کے درمـیان سود نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے وہ اپنے غلاموں کے پھل پکنے سے پہلے خرید لیتے تھے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 761
حَدَّثَنَا حَفْصٌ بن غیـاث ، الشیبانی ، عن الشعبی ، قَالَ : لَیْسَ بَیْنَ الْعَبْدِ وَبَیْنَ سَیِّدِہِ رِبًا ؛ یُعْطِیہِ دِرْہَمًا وَیَأْخُذُ مِنْہُ دِرْہَمَیْنِ۔
شعبی فرماتے ہیں کہ غلام اور اس کے آقا کے درمـیان سود نہیں ہوتا۔ وہ غلام کو ایک درہم دے کر اس سے دو درہم بھی لے سکتا ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 762
حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ أبی الْعَوَّامِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَیْسَ بَیْنَ الْعَبْدِ وَبَیْنَ سَیِّدِہِ رِبًا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غلام اور اس کے آقا کے درمـیان سود نہیں ہوتا۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 763
حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، وَعَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، وَعَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَیْسَ بَیْنَ الْعَبْدِ وَبَیْنَ سَیِّدِہِ رِبًا۔
حضرت جابر اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ غلام اور اس کے آقا کے درمـیان سود نہیں ہوتا۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 766
حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، وَالْحَسَنِ ، قَالاَ : لَیْسَ بَیْنَ الْعَبْدِ وَبَیْنَ سَیِّدِہِ رِبًا۔
حضرت جابر بن زید اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ غلام اور اس کے آقا مـیں سود نہیں ہوتا۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 785
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ کَہْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ مَیْمُونِ الْقَنَّادِ ، قَالَ : قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : الرَّجُلُ یَشْتَرِی الماشیۃ وَأَنَا أَنْظُرُ إلَی وَزْنِہَا أَشْتَرِیہَا بِوَزْنِہَا ؟ قَالَ : کَانَ یُقَالُ : ذَلِکَ الرِّبَا ، خَالَطَ الْکَیْلَ وَالْوَزْنَ۔
حضرت مـیمون قناد فرماتے ہیں کہ مـیں نے حضرت سعید بن مسیب سے سوال کیـا کہ ایک آدمـی ایک جانور بیچتا ہے مـیں اس کو وزن کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو کیـا اسی وزن سے خرید سکتا ہوں ؟ انہوں نے فرمایـا کہ کہا جاتا تھا کہ یہ وہ سود ہے جو کیل اور وزن کے ساتھ ملا ہوا ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 880
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ أَبِی جَنَابٍ وَیَزِیدَ بْنِ مَرْدَانُبَۃَ ، قَالَ أَحَدُہُمَا : جَائَنَا ، وَقَالَ الآخَرُ : جَائَ کِتَابُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ إلَی عَبْدِ الْحَمِیدِ : إِنَّہُ مَنْ قِبَلَکَ عَنِ الْعِینَۃِ ، فَإِنَّہَا أُخْتُ الرِّبَا۔
حضرت عمر بن عبد العزیز نے ایک خط مـیں لکھا کہ بیع عینہ سے منع کرو یہ سود کی بہن ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 984
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ حُکَیمِ بْنِ رزیق ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ فِی الْبُرِّ بِالدَّقِیقِ ، قَالَ : ہُوَ رِبًا۔
حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ گندم کو آٹے کے بدلے لینا سود ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 990
حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : سُئِلَ عَنِ السَّوِیقِ بِالْحِنْطَۃِ ، قَالَ : قَالَ : إِنْ لَمْ یَکُنْ رِبًا فَرِیبَۃٌ۔
حضرت عامر سے گندم کے بدلے ستو کی بیع کے بارے مـیں سوال کیـا گیـا تو انہوں نے فرمایـا کہ اگر اس مـیں سود نہ ہو تو سود کا ہی شائبہ تو ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 1146
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ وَسُئِلَ عَنْ رَجُلٍ اشْتَرَی بَعِیرًا فَنَدِمَ الْمُبْتَاعُ ، فَأَرَادَ أَنْ یَرُدَّہُ وَیَرُدَّ مَعَہُ ثَمَانیَۃَ دَرَاہِمَ فَقَالَ سَعِیدٌ : لاَ بَأْسَ بِہِ ، إنَّمَا الرِّبَا فِیمَا یُکَالُ وَیُوزَنُ مِمَّا یُؤْکَلُ وَیُشْرَبُ۔
حضرت سعید بن مسیب سے سوال کیـا گیـا کہ ایک آدمـی نے اونٹ خریدا پھر اسے اس معاملے پر افسوس ہوا، وہ اونٹ واپس کرتا ہے ساتھ آٹھ دراہم بھی دیتا ہے، ایسا کرنا کیسا ہے ؟ حضرت سعید نے فرمایـا کہ اس مـیں کوئی حرج نہیں، سود ان چیزوں مـیں ہوتا ہے جن کا کیل یـا وزن کیـا جاتا ہے یـا جب کھائی اور پی جاتی ہیں۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 1152
حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، وَابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ الْمُثَنَّی ، عَنْ جَدِّہِ رِیَاحِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ ، قَالَ : الْعَبْدُ خَیْرٌ مِنَ الْعَبْدَیْنِ ، وَالْبَعِیرُ خَیْرٌ مِنَ الْبَعِیرَیْنِ ، وَالثَّوْبُ خَیْرٌ مِنَ الثَّوْبَیْنِ ، لاَ بَأْسَ بِہِ یَدًا بِیَدٍ إنَّمَا الرِّبَا فِی النَّسَائِ ، إلاَّ مَا کِیلَ وَوُزِنَ۔
حضرت عمار بن یـاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک غلام دو غلاموں سے بہتر ہے، ایک اونٹ دو اونٹوں سے بہتر ہے، ایک کپڑا دو کپڑوں سے بہتر ہے، فوری ادائیگی کے ساتھ ہونے مـیں کوئی حرج نہیں، سودا ادھار مـیں ہوتا ہے، کیلی اور وزنی چیزوں کے علاوہ مـیں۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 1179
حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَص، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، أَوْ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ : صَفْقَتَانِ فِی صَفْقَۃٍ رِبًا ، إِلاَّ أَنْ یَقُولَ الرَّجُلُ : إِنْ کَانَ بِنَقْدٍ فَبِکَذَا ، وَإِنْ کَانَ بِنَسِیئَۃٍ فَبِکَذَا۔
حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک معاملے مـیں دو معاملے سود ہیں، البتہ اگر آدمـی یوں کہے کہ نقد اتنے کی اور ادھار اتنے کی تو یہ درست ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 1186
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِی بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُہُمَا ، أَوِ الرِّبَا۔ (ترمذی ۱۲۳۱۔ ابوداؤد ۳۴۵۵)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ 5 نے ارشاد فرمایـا کہ جس نے ایک بیع مـیں دو بیعات کیں اس کے لئے ان دونوں مـیں سے کم مالیت والی ہے وگرنہ وہ سود ہوگا۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 1338
حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحِنْطَۃُ بِالْحِنْطَۃِ وَالشَّعِیرُ بِالشَّعِیرِ یَدًا بِیَدٍ کَیْلاً بِکَیْلٍ وَزْنًا بِوَزْنٍ لاَ بأس فَمَنْ زَادَ أو اسْتَزَادَ ، فَقَدْ أَرْبَی إلاَّ مَا اخْتَلَفَتْ أَلْوَانُہُ۔ (مسلم ۸۴۔ احمد ۲/۲۶۲)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ 5 نے ارشاد فرمایـا کہ گندم کو گندم کے بدلے دینا، جو کو جو کے بدلے فوری ادائیگی کے ساتھ، ایک جیسے ماپ کے ساتھ اور ایک جیسے وزن کے ساتھ دینے مـیں کوئی حرج نہیں، اگری نے زیـادتی کی تو اس نے سود دیـا، البتہ جن چیزوں کے رنگ مختلف ہوجائیں تو ان کی کمـی زیـادتی مـیں کوئی حرج نہیں۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 1415
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّ أُبَیًّا کَانَ لَہُ عَلَی عُمَرَ دَیْنٌ فَأَہْدَی إلَیْہِ ہَدِیَّۃً فَرَدَّہَا ، فَقَالَ عُمَرُ : إنَّمَا الرِّبَا عَلَی مَنْ أَرَادَ أَنْ یُرْبِیَ ، وَیُنْسِیئَ۔
حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ کا کچھ قرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر لازم تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف کچھ ہدیہ بھیجا تو انہوں نے واپس کردیـا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایـا کہ سود تو اس صورت مـیں ہوتا ہے جب وہ مال کو بڑھا کر واپس کرنا چاہے یـا ادائیگی مـیں تاخیر کرانا چاہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 1416
حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِی أُنَیْسَۃَ ، أَنَّ عَلِیًّا سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یَقْرِضُ الرَّجُلَ الْقَرْضَ وَیُہْدِی إلَیْہِ ، قَالَ : ذَلِکَ الرِّبَا الْعَجْلاَنُ
حضرت زید بن ابی انیسہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیـا گیـا کہ کیـا یہ بات درست ہے کہ ایک آدمـی دوسرے کو قرض دے تو پھر اس سے ہدیہ قبول کرے ؟ انہوں نے فرمایـا کہ یہ بھی سود کی ایک شکل ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 1420
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : ذُکِرَ لابْنِ مَسْعُودٍ أن رَجُلاً أَقْرَضَ رَجُلاً دراہم وَاشْتَرَطَ ظَہْرَ فَرَسِہِ ، قَالَ : مَا أَصَابَ مِنْ ظَہْرِ فَرَسِہِ ، فَہُوَ رِبًا۔
حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے تذکرہ کیـا گیـا کہ ایک آدمـی نے دوسرے کو ایک درہم کا قرض دیـا اور اس پر شرط عائد کی کہ اس کے گھوڑے پر سواری کرے گا، یہ کیسا ہے ؟ انہوں نے فرمایـا کہ گھوڑے پر جتنی سواری کرے گا وہ سب سود ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 1425
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ أَبِی معقل ، قَالَ : بَیْعُ الْمُضْطَرِّ رِبًا۔
حضرت ابن معقل فرماتے ہیں کہ مجبوری کی بیع سود ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 1430
حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً ، فَہُوَ رِبًا۔
(٢١٠٧٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ہر وہ قرضہ جوی نفع کا سبب بنے، سود ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 1432
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : أَقْرَضَ رَجُلٌ رَجُلاً خَمْسَمِئَۃِ دِرْہَمٍ وَاشْتَرَطَ عَلَیْہِ ظَہْرَ فَرَسِہِ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : مَا أَصَابَ مِنْ ظَہْرِ فَرَسِہِ ، فَہُوَ رِبًا۔
حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں ایک آدمـی نے دوسرے کو پانچ سو درہم قرض دیـا اور اس کے گھوڑے پر سواری کرنے کی شرط لگائی، جب حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس بارے مـیں سوال کیـا گیـا تو انہوں نے فرمایـا کہ جتنی سواری کی وہ سب سود ہے۔
حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّؤَاسِیُّ ، عَنْ دِینَارٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ : أُعْطِی الصَّرَّافَ الدِّرْہَمَ بِالْبَصْرَۃِ وَآخُذُ السَّفْتَجَۃَ ، آخُذُ مِثْلَ دَرَاہِمِی بِالْکُوفَۃِ ، فَقَالَ : أنَّمَا یُفْعَلُ ذَلِکَ مِنْ أَجْلِ اللُّصُوصِ ، لاَ خَیْرَ فِی قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً۔
حضرت دینار فرماتے ہیں کہ مـیں نے حضرت حسن سے دریـافت کیـا : صراف کو بصر ہ مـیں دراہم دے کر اس سے رسید حاصل کی جاسکتی ہے ؟ اس جیسے دراہم کوفہ مـیں جا کر اس سے وصول کر لیئے جائیں ؟ آپ نے فرمایـا : یہ چوروں کی وجہ سے ایسا کیـا جاتا ہے، البتہ اس قرض مـیں کوئی خیر اور بھلائی نہیں ہے جس مـیں نفع ( سود ) ہو۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2587
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ وَکِیعٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مِنَ الرِّبَا أَنْ تُبَاعَ الثَّمَرَۃُ وَہِیَ مُغَضَّفَۃٌ لَم تَطِبْ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ پکنے سے قبل پھلوں کی بیع کرنا سود ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2781
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : آکِلُ الرِّبَا وَمُؤْکِلُہُ سَوَائٌ۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سود کھانے والا اور کھلانے والا دونوں گناہ مـیں برابر ہیں۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2783
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : آکِلُ الرِّبَا وَمُؤْکِلُہُ سواء ، وَکَاتِبُہُ وَشَاہِدُہُ إذَا عَلِمُوا بِہِ ، وَالْوَاشِمَۃُ وَالْمُسْتَوْشِمَۃ لِلْحُسْنِ ، وَلاَوِی الصَّدَقَۃِ ، وَالْمُرْتَدُّ أَعْرَابِیًّا بَعْدَ ہِجْرَتِہِ مَلْعُونُونَ عَلَی لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں سود خور اور سود کھلانے والا دونوں گناہ مـیں برابر ہیں۔ اور سودی معاملات لکھنے والا اور اس پر گواہ بننے والا جب وہ اس کے بارے مـیں جانتے ہوں، اور خوبصورتی کے لئے گودنے والی اور گودوانے والی خاتون اور صدقہ کو غلط استعمال کرنے والا۔ اور اعرابیوں مـیں سے جو ہجرت کے بعد مرتد ہوا اس پر آنحضرت کی زبان مبارک سے لعنت کی گئی ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2784
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : غُلِّقَتْ عَلَیْکُمْ أَبْوَابُ الرِّبَا فَأَنْتُمْ تَلْتمسُونَ مَحَارِمَہَا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں تم پر سود کے تمام دروازے بند کر دئیے گئے ہیں۔ بعد تم لوگ اس کی حرمت کو چاہتے ہو۔ ( طلب کرتے ہو۔ )
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2785
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَابِر بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لُعِنَ آکِلُ الرِّبَا وَمُؤْکِلُہُ وَکَاتِبُہُ وَشَاہِدَاہُ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایـا : سود کھانے والے پر ، کھلانے والے پر، اس کے معاملات لکھنے والے پر اور گواہوں پر لعنت کی گئی ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2786
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مُرَّۃَ الْہَمْدَانِیِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ: ثَلاَثٌ لأَنْ یَکُونَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیَّنَہُنَّ لَنَا أَحَبُّ إلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا : الْخِلاَفَۃُ وَالْکَلاَلَۃُ وَالرِّبَا۔
(ابن ماجہ ۲۷۲۷۔ حاکم ۳۰۴)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تین چیزوں کو اگر رسول اللہ ہمارے لئے بیـان فرما دیتے تو یہ دنیـا و مافیھا سے زیـادہ مـیرے لئے پسندیدہ ہوتا، ایک خلافت دوسری کلالہ (یعنی ایسی مـیت کہ جس کی نہ اولاد ہو اور نہ ہی والدین) اور تیسری چیز ہے سود۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2788
حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَدِرْہَمُ رِبًا أَشَدُّ عِنْدَ اللہِ تَعَالَی مِنْ سِتٍّ وَثَلاَثِینَ زَنْیَۃٍ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سود کا ایک درہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی بدتر ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2789
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الرِّبَا سَبْعُونَ حَوْبًا أَیْسَرُہَا نِکَاحُ الرَّجُلِ أُمَّہُ ، وَأَرْبَی الرِّبَا اسْتِطَالَۃُ الرَّجُلِ فِی عِرْضِ أَخِیہِ۔ (بخاری ۲۳۹)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس نے ارشاد فرمایـا؛ سود کے ستر گناہ ہیں، ان مـیں سب سے کم درجہ ہے کہ آدمـی اپنی ماں کے ساتھ زنا ( نکاح) کرے اور بڑا سود یہ ہے کہ آدمـی اپنے بھائی کی آبرو مـیں دست درازی کرے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2790
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِی ہَانِیئٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : قرَأْت کِتَابَ أَہْلِ نَجْرَانَ فَوَجَدْت فِیہِ إِنْ أَکَلْتُمُ الرِّبَا فَلاَ صُلْحَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یُصَالِحُ مَنْ یَأْکُلُ الرِّبَا۔
حضرت عامر فرماتے ہیں کہ مـیں نے اہل نجران کے مکتوب مـیں پڑھا اس مـیں لکھا تھا، اگر تم لوگ سود کھائو گے تو تمہارے اور ہمارے درمـیان کوئی صلح نہیں ، اور آنحضرت سود خوروں کے ساتھ صلح نہیں فرماتے تھے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2792
حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَعَنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَہُ۔ (بخاری ۲۰۸۶)
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت نے سود خود اور سود کھلانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2793
حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ وَدَاوُد ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : خَطَبَ عُمَرُ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : إنَّا نَأْمُرُکُمْ بِأَشْیَائَ لَعَلَّہَا لاَ تَصْلُحُ لَکُمْ ، وَنَنْہَاکُمْ عَنْ أَشْیَائَ لَعَلَّہَا تَصْلُحُ لَکُمْ ، وَإِنَّ آخِرَ مَا عَہِدَ إلَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آیَاتُ الرِّبَا ، فَقُبِضَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُبَیِّنْہُنَّ لَنَا ، إنَّمَا ہُوَ الرِّبَا وَالرِّیبَۃُ ، فَدَعُوا مَا یَرِیبُکُم إلی مَا لَا یَرِیبُکُم۔
فکان الشعبی إذا سُئلَ عَنِ الشَّیء قَالَ : إنَّمَا ہُوَ الرِّبَا وَالرِّیبَۃُ ، فَدَعُوا الرِّبَا وَالمُرِیبَاتِ۔ (احمد ۱/۳۶)
حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیـا اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیـان کی پھر فرمایـا : بیشک مـیں تمہیں کچھ چیزوں کا حکم دیتا ہوں شاید کہ وہ تمہارے لئے فائدہ مند نہیں ہیں اور تمہیں کچھ چیزوں سے روکتا ہوں شاید کہ وہ تمہارے لئے فائدہ مند ہیں، بیشک آنحضرت نے جو آخری عہد ہم سے لیـا وہ آیت ربا پر تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیـا سے پردہ فرما گئے اور ہمـیں اس کی تفصیل بیـان نہیں فرمائیں۔ بیشک یہ سود بھی ہے اور مشکوک بھی۔ لہٰذا مشکوک شے کو چھوڑ کر غیر مشکوک کو اختیـار کرو۔ حضرت شعبیی چیز کے متعلق دریـافت کیـا گیـا تو انہوں نے جواب دیـا کہ یہ سود اور مشکوک بھی ہے، لہٰذا سود اور مشک مـیں مـیں ڈالنے والی اشیـاء کو چھوڑ دو ۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2795
حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : دَفَعَ عَبْدُ اللہِ بْنُ یَزِیدَ الأَنْصَارِیُّ إلَی غُلاَمٍ لَہُ أَرْبَعَۃَ آلاَفٍ ، فَلَحِقَ بِأَصْبَہَانَ فَتَجَرَ حَتَّی صَارَتْ عِشْرِینَ أَلْفًا ، ثُمَّ ہَلَکَ ، فَقِیلَ لَہُ : إنَّہُ کَانَ یُقَارِف الرِّبَا ، فَأَخَذَ أَرْبَعَۃَ آلاَفٍ وَتَرَک مَا سِوَی ذَلِکَ۔
حضرت عبد اللہ بن یزید انصاری نے اپنے غلام کو چار ہزار درہم دے کر بھیجا، وہ اصبھان گیـا اور اس نے تجارت کی یہاں تک کہ اس کے پاس بیس ہزار درہم ہوگئے، پھر وہ غلام فوت ہوگیـا، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیـا کہ وہ غلام تجارت مـیں سود کی کرتا تھا، آپ نے صرف چار ہزار واپس لئے اور باقی پیسے چھوڑ دئیے، نہیں لئے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2796
حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَش ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ الأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : الرِّبَا بِضْعٌ وَسَبْعُونَ بَابًا ، وَالشِّرْکُ مِثْلُ ذَلِکَ۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سود کے ستر سے زیـادہ دروازے ہیں اور شرک بھی اسی کے مثل ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 2818
حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْعَوَّامِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ السَّکْسَکِیِّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی أَوْفَی ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ: النَّاجِشُ آکِلُ الرِّبَا خَائِنٌ۔
حضرت ابن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ جان بوجھ کر قیمت بڑھانے والا سود خور اور خائن ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 3280
حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، سَمِعَ مَالِکَ بْنَ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ یَقُولُ : سَمِعْت عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الذَّہَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إلاَّ ہَائَ وَہَائَ ، وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ رِبًا إلاَّ ہَائَ وَہَائَ ، وَالشَّعِیرُ بِالشَّعِیرِ رِبًا إلاَّ ہَائَ وَہَائَ ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إلاَّ ہَائَ وَہَائَ۔ (بخاری ۲۱۳۴۔ مسلم ۱۲۱۰)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایـا : سونے کی بیع سونے کے بدلے مـیں برابر نہ ہو تو سود ہے، اور چاندی کی چاندی کے بدلے برابر نہ ہو تو سود ہے، اور جو کی جو کے بدلے مـیں برابر نہ ہو تو سود ہے اور کھجور کی کھجور کے بدلے برابر نہ ہو تو سود ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 3286
حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ غَزْوَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نُعْمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ وَزْنٌ بِوَزْنٍ مِثْلٌ بِمِثْلٍ ، وَالذَّہَبُ بِالذَّہَبِ وَزْنٌ بِوَزْنٍ مِثْلٌ بِمِثْلٍ ، فَمَا زَادَ ، فَہُوَ رِبًا ، وَلاَ تُبَاعُ ثَمَرَۃٌ حَتَّی یَبْدُوَ صَلاَحُہَا۔ (احمد ۲/۲۶۲)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس نے ارشاد فرمایـا : چاندی کو چاندی کے بدلے، برابر سرابر اور سونے کو سونے کے بدلے برابر سر ابر بیع کرو، اور جو زیـادتی ہوگی وہ سود ہے ، اور بدو صلاح سے قبل پھلوں کی بیع مت کرو۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 3291
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْعَبْدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو الْمُتَوَکِّلِ النَّاجِی ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ ، وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ ، وَالشَّعِیرُ بِالشَّعِیرِ ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ ، یَدًا بِیَدٍ ، مِثْلاً بِمِثْلٍ ، فَمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ فَقَدْ أَرْبَی ، الآخِذُ وَالْمُعْطِی فِیہِ سَوَائٌ۔ (مسلم ۱۲۱۱۔ احمد ۳/۴۹)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس نے ارشاد فرمایـا : سونے کو سونے کے بدلے، چاندی کو چاندی کے بدلے، گندم کو گندم کے بدے، جو کو جو کے بدلے، کھجور کو کھجور کے بدلے اور نمک کو نمک کے بدلے نقد اور برابر سرابر فروخت کرو، بعد جو زیـادہ دے یـا زیـادہ طلب کرے اس نے سودی معاملہ کیـا، اور اس مـیں دینے اور لینے والا دونوں برابر ہیں۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 3292
حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عن عمر ، قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، لاَ تَشْتَرُوا دِینَارًا بِدِینَارَیْنِ ، وَلاَ دِرْہَمًا بِدِرْہَمَیْنِ ، فَإِنِّی أَخَافُ عَلَیْکُمُ الرَّمَاء ، قِیلَ : وَمَا الرَّمَاء ؟ قَالَ : ہُوَ الَّذِی تَدْعُونَہُ الرِّبَا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایـا : اے لوگو ! ایک دینار کو دو کے بدلے، اور ایک درہم کو دو کے بدلے نہ بیچو، بیشک مجھے تم پر الرّماء کا خوف ہے : پوچھا گیـا : الرّماء کیـا ہے ؟ رماء وہی ہے کہ جس کو تم لوگ سود کا نام دیتے ہو۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 3306
حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّمَا الرِّبَا فِی النَّسَائِ۔ (بخاری ۲۱۷۹۔ مسلم ۱۵۴)
(٢٢٩٥٤) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایـا : سود ادھار مـیں ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 3308
حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عُقْبَۃَ أَبِی الأَخْضَرِ ، قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ عَنِ الذَّہَبِ یُبَاعُ بِنَسِیئَۃٍ، فَقَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَی ہَذَا الْمِنْبَرِ وَسُئِلَ عَنْہُ فَقَالَ: کُلُّ سَاعَۃٍ اسْتَنْسَأَہُ ، فَہُوَ رِبًا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دریـافت کیـا گیـا کہ سونے کو ادھار فروخت کرنا کیسا ہے ؟ فرمایـا مـیں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس منبر پر سنا تھا ان سے سوال کیـا گیـا تھا ؟ آپ نے فرمایـا : جتنی گھڑی کا بھی اس نے ادھار کیـا ہے وہ سب سود ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 3396
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ مُجَمِّعٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّہُ قَالَ فِی الْبُرِّ بِالتَّمْرِ نَسِیئَۃً : رِبًا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایـا : گندم کو کھجور کے بدلے ادھار فروخت کرنا سود ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 3454
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : کُلُّ شَرْطٍ فِی مُضَارَبَۃٍ ، فَہُوَ رِبًا وَہُوَ قَوْلُ قَتَادَۃَ۔
حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ مضاربت مـیں ہر قسم کی شرط سود ہے۔ اور یہی حضرت قتادہ کا قول ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 3567
حَدَّثَنَا رَوَّادُ بْنُ جَرَّاحٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ : فِی رَجُلٍ أَقْرَضَ رَجُلاً عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ فَأَتَی بِعَشَرَۃٍ وَدَانِقَیْنِ ، قَالَ : لاَ تَقْبَلْ ، قُلْتُ لَہُ : إِنَّہُ قَدْ طَابَتْ نَفْسُہُ ، قَالَ : وَہَلْ یَکُونُ الرِّبَا إلأَعَنْ طِیبِ نَفْسٍ۔
حضرت الاوزاعی سے مروی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کو دس درہم قرض دیـا وہ شخص قرض واپس کرتے وقت دس درہم اور دو دانق (درہم کا چھٹا حصّہ) لے آیـا، فرمایـا : اس کو قبول مت کرو، مـیں نے عرض کیـا وہ خوش دلی سے دے رہا ہے، فرمایـا کیـا سود خوش دلی سے نہ ہوتا تھا ؟ !۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 3913
حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی عَاصِمٍ : أَنَّہُ بَاعَ مِنْ أُخْتِہِ بَیْعًا إلَی أَجَلٍ ، ثُمَّ أَمَرَتْہُ أَنْ یَبِیعَہُ ، فَبَاعَہُ ، فَسَأَلْت ابْنَ الْمُسَیَّبِ ؟ فَقَالَ : أبْصِرْ أَنْ یَکُونَ أَنْتَ ہُوَ؟ قُلْتُ : أَنَا ہُوَ ، قَالَ : ذَاکَ ہُوَ الرِّبَا ، ذَاکَ ہُوَ الرِّبَا ، فَلاَ تَأْخُذْ مِنْہُ إلاَّ رَأْسَ مَالِکَ۔
حضرت دائود بن ابی عاصم سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بہن سے ایک مدت تک کے لئے بیع کی، پھر ان کی بہن نے اس کو فروخت کردیـا، مـیں نے حضرت سعید بن المسیب سے اس کے متعلق دریـافت کیـا ؟ آپ نے فرمایـا : دیکھ لو کیـا آپ وہی ہو ؟ مـیں نے عرض کیـا جی مـیں وہی ہوں ، فرمایـا وہ ربا ہے، وہ سود ہے، آپ اس سے صرف راس المال واپس لے لو۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 3974
حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ : فِی الرَّجُلِ یُقْضَی مِنَ الْقِمَارِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ۔ وَقَالَ الْحَسَنُ فِی الرَّجُلِ یَقْضِی مِنَ الرِّبَا : لاَ بَأْسَ بِہِ۔
حضرت ابن سیرین سے مروی ہے کہ آدمـی کو جوئے کی رقم سے قرضہ ادا کیـا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ آدمـی کو سود مـیں سے قرضہ دیـا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 4097
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنْ رَجُلٍ أَشْتَرِی مِنْہُ طَعَامًا فَیُعْطِینِی بَعْضَہُ ثُمَّ یُقْطَعُ بِہِ فَلاَ یَجِدُ مَا یُعْطِینِی فَیَقُولُ : بِعْنِی مِنْ طَعَامِکَ حَتَّی أُعْطِیَک ؟ قَالَ : لاَ تَقْرَبَنَّ ہَذَا ، ہَذَا الرِّبَا الصَّرَاحِیَۃُ۔
حضرت ربیع فرماتے ہیں کہ مـیں نے حضرت ابو جعفر سے دریـافت کیـا کہ مـیں نے ایک شخص سے گندم خریدی، پھر اس نے مجھے کچھ دیـا، پھر اس کے پاس طعام ختم ہوگیـا۔ اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا جو مجھے دے سکتا۔ اس نے کہا اپنی گندم مـیں سے مجھے فروخت کر دے تاکہ مـیں تجھے (تیرا باقی حصہ) دے دوں ؟ حضرت ابو جعفر نے فرمایـا : اس کے قریب بھی مت جانا یہ کھم کھلا سود ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 4113
حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، قَالَ : کَانَ ہِشَامُ بْنُ ہُبَیْرَۃَ یَقْضِی : مَنِ اسْتَأْجَرَ شَیْئًا ثُمَّ آجَرَہُ بِأَکْثَرَ مِمَّا اسْتَأْجَرَہُ بِہِ ، أَنَّ ذَلِکَ الْفَضْلَ لِرَبِّہِ۔
حضرت عوف فرماتے ہیں کہ حضرت ہشام بن ھبیرہ فیصلہ فرماتے تھے کہ جو شخص کرایہ پر چیز لے کر آگے زیـادہ کرایہ پردے دے تو زیـادتی سود ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد ششم:حدیث نمبر 4223
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنْ رَجُلٍ أَشْتَرِی مِنْہُ طَعَامًا فَیُعْطِینِی بَعْضَہُ ، ثُمَّ یَقْطَعُ بِہِ فَلاَ یُعْطِینِی فَیَقُولُ : بِعْنِی طَعَامَکَ حَتَّی أَقْضِیَک ؟ قَالَ : لاَ تَقْرَبَنَّ ہَذَا ہذا الرِّبَا الصَّرَاحِیَۃُ
حضرت ربیع بن سعد فرماتے ہیں کہ مـیں نے حضرت ابو جعفر سے دریـافت کیـا کہ ایک شخص سے مـیں نے گندم خریدی اس نے کچھ مجھے دے دیـا اور پھر وہ کہیں چلا گیـا اور باقی مجھے نہیں دیـا اور کہتا ہے کہ : اپنی گندم مجھے فروخت کر دے یہاں تک کہ مـیں آپ کو ادا کر دوں ؟ فرمایـا اس بیع کے قریب مت جانا یہ صراحۃً سود ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد نہم:حدیث نمبر 182
حَدَّثَنَا ہَوْذَۃُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَمُرَۃُ بْنُ جُنْدُبٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّا یَقُولُ لأَصْحَابِہِ : ہَلْ رَأَی أَحَدٌ مِنْکُمْ رُؤْیَا ، فَیَقُصُّ عَلَیْہِ مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَقُصَّ ، فَقَالَ لَنَا ذَاتَ غَدَاۃٍ : إنِّی أَتَانِی اللَّیْلَۃَ آتِیَانِ ، أَو اثْنَانِ الشَّکُّ مِنْ ہَوْذَۃَ ، فَقَالاَ لِی : انْطَلِقْ ، فَانْطَلَقْت مَعَہُمَا ، وَإِنَّا أَتَیْنَا عَلَی رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ وَإِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَیْہِ بِصَخْرَۃٍ ، وَإِذَا ہُوَ یَہْوِی بِالصَّخْرَۃِ لِرَأْسِہِ ، فَیَثْلَغُ رَأْسَہُ فَیَتَدَہْدَہُ الْحَجَرُ ہَاہُنَا فَیَأْخُذُہُ ، وَلاَ یَرْجِعُ إلَیْہِ حَتَّی یَصِحَّ رَأْسُہُ کَمَا کَانَ ، ثُمَّ یَعُودُ عَلَیْہِ فَیَفْعَلُ بِہِ مِثْلَ الْمَرَّۃِ الأُولَی ، قَالَ : قُلْتُ لَہُمَا : سُبْحَانَ اللہِ مَا ہَذَا فَقَالاَ لِی : انْطَلِقْ۔
فَانْطَلَقْنَا حَتَّی أَتَیْنَا عَلَی رَجُلٍ مُسْتَلْقٍ لِقَفَاہُ وَإِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَیْہِ بِکَلُّوبٍ مِنْ حَدِیدٍ ، وَإِذَا ہُوَ یَأْتِی أَحَدَ شِقَّیْ وَجْہِہِ فَیُشَرْشِرُ شِدْقَہُ إلَی قَفَاہُ ، وَعَیْنَہُ إلَی قَفَاہُ ، وَمَنْخِرَہُ إلَی قَفَاہُ ، ثُمَّ یَتَحَوَّلُ إلَی الْجَانِبِ الآخَرِ ، فَیَفْعَلُ بِہِ مِثْلَ ذَلِکَ ، فَمَا یَفْرُغُ مِنْہُ حَتَّی یَصِحَّ ذَلِکَ الْجَانِبُ کَمَا کَانَ ، ثُمَّ یَعُودُ عَلَیْہِ فَیَفْعَلُ بِہِ کَمَا فَعَلَ فِی الْمَرَّۃِ الأُولَی ، فَقُلْتُ لَہُمَا : سُبْحَانَ اللہِ مَا ہَذَا ؟ قَالَ : قَالاَ لِی : انْطَلِقَ انْطَلِقْ۔
فَانْطَلَقْنَا حَتَّی أَتَیْنَا عَلَی مِثْلِ بِنَائِ التَّنُّورِ ، قَالَ : فَأَحْسِبُ أَنَّہُ قَالَ سَمِعَنَّا فِیہِ لَغَطًا وَأَصْوَاتًا ، فَاطلعنَا فَإِذَا فِیہِ رِجَالٌ وَنِسَائٌ عُرَاۃٌ وَإِذَا ہُمْ یَأْتِیہِمْ لَہَبٌ مِنْ أَسْفَلَ مِنْہُمْ ، فَإِذَا أَتَاہُمْ ذَلِکَ اللَّہَبُ ضَوْضَوا ، قَالَ : قُلْتُ لَہُمَا : مَا ہَؤُلاَئِ ؟ قَالَ : قَالاَ لِی : انْطَلِقَ انْطَلِقْ۔
قَالَ : فَانْطَلَقْنَا حَتَّی أَتَیْنَا عَلَی نَہْرٍ – حَسِبْت أَنَّہُ قَالَ أَحْمَرَ – مِثْلِ الدَّمِ ، فَإِذَا فِی النَّہَرِ رَجُلٌ یَسْبَحُ وَإِذَا عَلَی شَاطِیئِ النَّہَرِ رَجُلٌ قَدْ جَمَعَ عِنْدَہُ حِجَارَۃً کَثِیرَۃً ، وَإِذَا ذَلِکَ السَّابِحُ یَسْبَحُ مَا سَبَحَ ، ثُمَّ یَأْتِی ذَلِکَ الَّذِی قَدْ جَمَعَ عِنْدَہُ الْحِجَارَۃَ فَیَفْغَرُ لَہُ فَاہُ ، فَیُلْقِمُہُ حَجَرًا ، فَیَذْہَبُ فَیَسْبَحُ مَا سَبَحَ ، ثُمَّ یَأْتِی ذَلِکَ الَّذِی کُلَّمَا رَجَعَ فَغَرَ لَہُ فَاہُ فَأَلْقَمَہُ الْحَجَرَ ، قَالَ : قُلْتُ : مَا ہَذَا ؟ قَالَ : قَالاَ : لِی : انْطَلِقَ انْطَلِقْ۔
قَالَ : فَانْطَلَقْنَا ، فَأَتَیْنَا عَلَی رَجُلٍ کَرِیہِ الْمَرْآۃِ کَأَکْرَہِ مَا أَنْتَ رَائٍ رَجُلاً مَرْآۃً ، وَإِذَا ہُوَ عِنْدَ نَارٍ یَحشُہَا وَیَسْعَی حَوْلَہَا ، قَالَ : قُلْتُ لَہُمَا : مَا ہَذَا ؟ قَالاَ لِی : انْطَلِقَ انْطَلِقْ۔
فَانْطَلَقْنَا حَتَّی أَتَیْنَا عَلَی رَوْضَۃٍ مُعْتمَّۃٍ فِیہَا مِنْ کُلِّ نَوْرِ الرَّبِیعِ وَإِذَا بَیْنَ ظَہْرَانَیِ الرَّوْضَۃِ رَجُلٌ طَوِیلٌ لاَ أَکَادُ أَرَی رَأْسَہُ طُولاً فِی السَّمَائِ وَإِذَا حَوْلَ الرَّجُلِ مِنْ أَکْثَرِ وِلْدَانٍ رَأَیْتہمْ قَطُّ وَأَحْسَنِہ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُمَا: مَا ہَذَا ؟ وَمَا ہَؤُلاَئِ ؟ قَالَ : قَالاَ لِی : انْطَلِقْ۔
فَانْطَلَقْنَا ، فَانْتَہَیْنَا إلَی دَرَجَۃٍ عَظِیمَۃٍ لَمْ أَرَ قَطُّ دَرَجَۃً أَعْظَمَ مِنْہَا وَلاَ أَحْسَنَ ، قَالَ : قَالاَ لِی : ارْقَ فِیہَا ، فَارْتَقَیْتہَا فَانْتَہَیْنَا إلَی مَدِینَۃٍ مَبْنِیَّۃٍ بِلَبِنِ ذَہَبٍ وَلَبِنِ فِضَّۃٍ ، قَالَ : فَأَتَیْنَا بَابَ الْمَدِینَۃِ فَاسْتَفْتَحْنَاہَا فَفُتِحَ لَنَا ، فَدَخَلْنَاہَا فَتَلَقَّانَا فِیہَا رِجَالٌ شَطْرٌ مِنْ خَلْقِہِمْ کَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَائٍ وَشَطْرٌ کَأَقْبَحِ مَا أَنْتَ رَائٍ ، قَالَ : قَالاَ لَہُمْ : اذْہَبُوا فَقَعُوا فِی ذَلِکَ النَّہَرِ ، قَالَ : فَإِذَا نَہْرٌ مُعْتَرِضٌ یَجْرِی کَأَنَّ مَائَہُ الْمَحْضُ مِنَ الْبَیَاضِ ، قَالَ : فَذَہَبُوا فَوَقَعُوا فِیہِ ، ثُمَّ رَجَعُوا إلَیْنَا وَقَدْ ذَہَبَ السُّوئُ عَنْہُمْ وَصَارُوا فِی أَحْسَنِ صُورَۃٍ۔
قَالَ : قَالاَ لِی : ہَذِہِ جَنَّۃُ عَدْنٍ ، وَہَا ہُوَ ذَاکَ مَنْزِلُک ، قَالَ : فَسَمَا بَصَرِی صُعَدَاً ، فَإِذَا قَصْرٌ مِثْلُ الرَّبَابَۃِ الْبَیْضَائِ ، قَالَ : قَالاَ لِی : ہَا ہُوَ ذَاک مَنْزِلُک ، قَالَ : قُلْتُ لَہُمَا : بَارَکَ اللَّہُ فِیکُمَا ذَرَانِی فَلأَدْخُلُہُ ، قَالَ : قَالاَ لِی : أَمَّا الآنَ فَلاَ ، وَأَنْتَ دَاخِلُہُ۔
قَالَ : قُلْتُ لَہُمَا : إنِّی قَدْ رَأَیْت ہَذِہِ اللَّیْلَۃَ عَجَبًا ، فَمَا ہَذَا الَّذِی رَأَیْت ؟ قَالَ : قَالاَ : أَمَا إنَّا سَنُخْبِرُک ، أَمَّا الرَّجُلُ الأَوَّلُ الَّذِی أَتَیْتَ عَلَیْہِ یُثْلَغُ رَأْسُہُ بِالْحَجَرِ فَإِنَّہُ رَجُلٌ یَأْخُذُ الْقُرْآنَ وَیَنَامُ عَنِ الصَّلاَۃِ الْمَکْتُوبَۃِ۔ وَأَمَّا الرَّجُلُ الَّذِی أَتَیْتَ عَلَیْہِ یُشَرْشَرُ شَدْقَہُ وَعَیْنَہُ وَمَنْخِرَہُ إلَی قَفَاہُ فَإِنَّہُ رَجُلٌ یَغْدُو مِنْ بَیْتِہِ فَیَکْذِبُ الْکِذْبَۃَ تَبْلُغُ الآفَاقَ۔ وَأَمَّا الرِّجَالُ وَالنِّسَائُ الْعُرَاۃُ الَّذِینَ فِی مِثْلِ بِنَائِ التَّنُّورِ فَإِنَّہُمَ الزُّنَاۃُ وَالزَّوَانِی۔ وَأَمَّا الرَّجُلُ الَّذِی یَسْبَحُ فِی النَّہَرِ وَیُلْقَمُ الْحِجَارَۃَ فَإِنَّہُ آکِلُ الرِّبَا۔ وَأَمَّا الرَّجُلُ الَّذِی عِنْدَ النَّارِ کَرِیہِ الْمِرْآۃِ فَإِنَّہُ مَالِکٌ خَازِنُ جَہَنَّمَ۔ وَأَمَّا الرَّجُلُ الطَّوِیلُ الَّذِی فِی الرَّوْضَۃِ فَإِنَّہُ إبْرَاہِیمُ ، وَأَمَّا الْوِلْدَانُ الَّذِینَ حَوْلَہُ فَکُلُّ مَوْلُودٍ مَاتَ عَلَی الْفِطْرَۃِ ، قَالَ : فَقَالَ بَعْضُ الْمُسْلِمِینَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَأَوْلاَدُ الْمُشْرِکِینَ ؟ قَالَ : وَأَوْلاَدُ الْمُشْرِکِینَ۔
وَأَمَّا الْقَوْمُ الَّذِینَ شَطْرٌ مِنْہُمْ کَأَقْبَحِ مَا رَأَیْت وَشَطْرٌ کَأَحْسَنِ مَا رَأَیْت فَإِنَّہُمْ قَوْمٌ خَلَطُوا عَمَلاً صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا فَتَجَاوَزَ اللَّہُ عَنْہُمْ۔ (بخاری ۱۳۸۶۔ مسلم ۱۷۸۱)
حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے فرمایـا کرتے تھے کہ کیـا تم مـیں سےی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ بعد آپ پر جو اللہ تعالیٰ چاہتا بیـان کیـا جاتا، ایک صبح آپ نے ہم سے فرمایـا : بیشک مـیرے پاس آج رات دو آدمـی آئے، ” راوی نے ” آتیـان “ کا لفظ بیـان کیـا یـا ” اثنان “ کا، “ ان دو آدمـیوں نے مجھ سے کہا چلو، مـیں ان کے ساتھ چل پڑا۔ ہم ایک آدمـی کے پاس پہنچے جو لیٹا ہوا تھا اور دوسرا آدمـی اس کے سرہانے ایک چٹان اٹھائے کھڑا تھا، اچانک اس نے اس کے سر پر چٹان پھینک کر اس کا سر کچل دیـا، بعد پتھر لڑھک کر کچھ دور چلا گیـا، وہ آدمـی جا کر اس پتھر کو اٹھاتا ہے اور ابھی اس لیٹے ہوئے آدمـی کے پاس نہیں پہنچتا کہ اس کا سر پہلے کی طرح صحیح سلامت ہوجاتا ہے، پھر وہ اس کے ساتھ پہلے والا عمل دہراتا ہے، آپ فرماتے ہیں مـیں نے کہا سبحان اللہ ! یہ کیـا ہے ؟ وہ کہنے لگے چلو۔ پھر ہم چلے یہاں تک کہ ایک آدمـی کے پاس پہنچے جو گدّی کے بل لیٹا ہوا ہے، اور دوسرا آدمـی اس کے قریب لوہے کا آنکڑا اٹھائے کھڑا ہے اور وہ اس لیٹے ہوئے آدمـی کے ایک کلّے کے قریب آ کر اس کے کلّے کو گدّی تک چیر دیتا ہے اور اس کی آنکھ کو بھی گدّی تک چیردیتا ہے اور گلے کو بھی گدّی تک چیر دیتا ہے، پھر دوسری جانب آتا ہے اور اس کے ساتھ بھی یہی فعل کرتا ہے، وہ اس دوسرے سے کلّے سے فارغ نہیں ہوتا کہ پہلی جانب پہلے کی طرح صحیح و تندرست ہوجاتی ہے، پھر وہ دوسری مرتبہ وہی عمل کرتا ہے جو اس نے پہلی مرتبہ کیـا تھا، مـیں نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا : سبحان اللہ ! یہ کیـا ہے ؟ آپ فرماتے ہیں کہ وہ مجھ سے کہنے لگے کہ آپ چلے چلیے۔ پھر ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک تنور جیسی عمارت کے پاس پہنچے ، راوی فرماتے ہیں کہ غالباً آپ نے یہ فرمایـا کہ ہم نے اس تنور مـیں شوروغل کی آوازیں سنیں، ہم نے اس عمارت مـیں جھانکا تو اس مـیں ننگے مرد اور ننگی عورتیں تھیں، اور نیچے سے آگ کے شعلے آتے ہیں ، بعد جب ان کے پاس آگ کے شعلے آتے ہیں تو وہ چیخ و پکار کرتے ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ مـیں نے ان دونوں سے کہا یہلوگ ہیں ؟ وہ کہنے لگے کہ آپ چلے چلیے۔ آپ فرماتے ہیں کہ پھر ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک نہر پر پہنچے ، راوی کہتے ہیں کہ غالباً آپ نے فرمایـا : کہ وہ سرخ رنگ کی نہر تھی، خون جیسے رنگ کی، وہاں یہ دیکھا کہ نہر کے اندر ایک آدمـی تیر رہا ہے اور نہر کے کنارے ایک آدمـی ہے جس نے اپنے ارد گرد بہت سے پتھر اکٹھے کر رکھے ہیں وہ تیرنے والا اپنی بساط کے مطابق تیرتا ہوا اس آدمـی کے پاس پہنچتا ہے جس نے اپنے گرد پتھر اکٹھے کر رکھے ہیں اور اس کے سامنے پہنچ کر اپنا منہ کھولتا ہے چناچہ وہ اس کے منہ مـیں پتھر ڈال دیتا ہے، آپ نے فرمایـا کہ مـیں نے کہا یہ کیـا ہے ؟ وہ مجھ سے کہنے لگے آپ چلے چلیے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک نہایت بد صورت شخص کے پاس پہنچے، ایسا بد صورت کہی نے اس جیسا بدصورت نہیں دیکھا ہوگا، اور ہم نے دیکھا کہ اس کے پاس آگ ہے جس کو وہ بھڑکا رہا ہے اور اس کے گرد چکّر لگا رہا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ مـیں نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ یہ کیـا ہے ؟ انہوں نے مجھ سے کہا : چلے چلیے۔ چنانچہ ہم چلے یہاں تک کہ ہم پہنچے ایک باغ مـیں ، جس کے اندر موسم بہار کے ہمہ اقسام کے پھول نکل رہے تھے، اور ہم نے باغ کے درمـیان ایک لمبے قد کے آدمـی کو دیکھا، مـیں آسمان کی طرف اس کے سر کی اونچائی کو ٹھیک طرح سے دیکھ نہیں پا رہا تھا ، اور مـیں نے دیکھا کہ اس آدمـی کے گرد بہت زیـادہ تعداد مـیں اور بہت خوب رو بچے تھے، آپ نے فرمایـا کہ مـیں نے ان دونوں سے کہا کہ یہ شخصہے ؟ اور یہ بچےہیں ؟ آپ فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ چلیے۔ الغرض ہم چلے اور ایک بڑی سیڑھی کے پاس پہنچے، مـیں نے اس سے پہلے اس سے بڑی اور اس سے اچھی سیڑھی نہیں دیکھی، آپ فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس پر چڑھیے، مـیں اس پر چڑھا اور ہم ایک شہر مـیں پہنچے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا، آپ فرماتے ہیں کہ ہم شہر کے دروازے پر آئے، اور ہم نے دورازہ کھلوانا چاہا تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیـا گیـا، چناچہ ہم اس مـیں داخل ہوئے تو ہمـیں کچھ لوگ ملے جن کے جسم کا ایک حصّہ نہایت خوبصورت اور دوسرا حصّہ نہایت بدصورت ، آپ فرماتے ہیں کہ مـیرے دونوں ساتھیوں نے ان لوگوں سے کہا کہ جائو اور اس نہر مـیں غوطہ لگائو مـیں نے دیکھا تو ایک نہر چل رہی تھی جس کا پانی انتہائی سفید تھا، آپ فرماتے ہیں کہ وہ گئے اور اس نہر مـیں کود گئے، پھر وہ ہمارے پاس ایسی حالت مـیں لوٹے کہ ان سے برائی جاتی رہی ، اور وہ خوب صورت شکل مـیں بدل گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ وہ دونوں کہنے لگے یہ جنّتِ عدن ہے، اور یہ دیکھیے یہ آپ کا گھر ہے، آپ فرماتے ہیں کہ مـیری نظر اوپر کی طرف پڑی تو مـیں نے دیکھا کہ سفید بادل جیسا ایک محل ہے۔ آپ نے فرمایـا : کہ ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ وہی آپ کی جائے قیـام ہے، آپ فرماتے ہیں کہ مـیں نے ان سے کہا اللہ تم دونوں مـیں برکت دے ذرا مجھے اپنے گھر مـیں جانے دو ، وہ کہنے لگے کہ ابھی تو نہیں لیکن آپی وقت اپنے گھر مـیں پہنچ جائیں گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مـیں نے آج رات عجیب چیزیں دیکھی ہیں، یہ کیـا چیزیں ہیں ؟ وہ کہنے لگے کہ ہم اب آپ کو بتائیں گے، پہلا آدمـی جس کے پاس آپ پہنچے تھے اور اس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا وہ آدمـی ہے جس نے قرآن حفظ کیـا ہو لیکن وہ فرض نماز چھوڑ کر سویـا رہے، اور وہ آدمـی جس کے کلے اور آنکھیں اور کلہ گدّی چیرے جا رہے تھے وہ شخص ہے جو صبح کے وقت گھر سے نکلتا ہے اور ایسا جھوٹ بولتا ہے جو اطرافِ عالم مـیں پھیل جاتا ہے، اور وہ ننگے مرد اور عورتیں جو تنور جیسی عمارت کے اندر ہیں وہ زانی مرد اور زانیہ عورتیں ہیں، اور وہ آدمـی جو نہر مـیں تیر رہا تھا اور اس کے منہ مـیں پتھر ڈالے جا رہے تھے وہ سود خور ہے، اور وہ بدصورت آدمـی جو آگ کے پاس تھا وہ مالک جہنم کا داروغہ ہے۔ اور وہ طویل قامت جو باغیچہ مـیں تھے وہ ابراہیم ہیں، اور ان کے گرد جو بچے تھے یہ وہ تمام بچے ہیں جو فطرتِ اسلام پر مرگئے، راوی فرماتے ہیں کہ بعض مسلمانوں نے عرض کیـا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مشرکین کی اولاد کا کیـا ہوگا ؟ آپ نے فرمایـا : کہ مشرکین کے بچے بھی وہیں ہوں گے، آپ نے آگے بیـان فرمایـا کہ وہ لوگ جن کے جسم کا ایک حصّہ انتہائی بدصورت اور دوسرا حصّہ نہایت خوب صورت تھا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نیک اور برے اعمال ملے جلے کیے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیـا۔
ابن ابی شیبہ:جلد نہم:حدیث نمبر 4750
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَابِسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أبو إیَاسٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی خُطْبَتِہِ : إنَّ أَصْدَقَ الْحَدِیثِ کَلاَمُ اللہِ ، وَأَوْثَقَ الْعُرَی کَلِمَۃُ التَّقْوَی ، وَخَیْرَ الْمِلَلِ مِلَّۃُ إبْرَاہِیمَ ، وَأَحْسَنَ الْقَصَصِ ہَذَا الْقُرْآنُ ، وَأَحْسَنَ السُّنَنِ سُنَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَشْرَفَ الْحَدِیثِ ذِکْرُ اللہِ ، وَخَیْرَ الأُمُورِ عَزَائِمُہَا ، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُہَا ، وَأَحْسَنَ الْہَدْیِ ہَدْیُ الأَنْبِیَائِ ، وَأَشْرَفَ الْمَوْتِ قَتْلُ الشُّہَدَائِ ، وَأَغَرَّ الضَّلاَلَۃِ الضَّلاَلَۃُ بَعْدَ الْہُدَی ، وَخَیْرَ الْعِلْمِ مَا نَفَعَ ، وَخَیْرَ الْہُدَی مَا اتُّبِعَ ، وَشَرَّ الْعَمَی عَمَی الْقَلْبِ۔
۲وَالْیَدَ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَی ، وَمَا قَلَّ وَکَفَی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَأَلْہَی ، وَنَفْسٌ تُنْجِیہَا خَیْرٌ مِنْ أَمَارَۃٍ لاَ تُحْصِیہَا ، وَشَرَّ الْعَذِلَۃِ عِنْدَ حَضْرَۃِ الْمَوْتِ ، وَشَرَّ النَّدَامَۃِ نَدَامَۃُ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ لاَ یَأْتِی الصَّلاَۃَ إِلاَّ دبریًّا ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ لاَ یَذْکُرُ اللَّہَ إِلاَّ مُہَاجِرًا ، وَأَعْظَمَ الْخَطَایَا اللِّسَانُ الْکَذُوبُ ، وَخَیْرَ الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ ، وَخَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی ، وَرَأْسَ الْحِکْمَۃِ مَخَافَۃُ اللہِ ، وَخَیْرَ مَا أُلْقِیَ فِی الْقَلْبِ الْیَقِینُ ، وَالرَّیْبَ مِنَ الْکُفْرِ ، وَالنَّوْحَ مِنْ عَمَلِ الْجَاہِلِیَّۃِ ، وَالْغُلُولَ مِنْ جَمْرِ جَہَنَّمَ ، وَالْکَنْزَ کَیٌّ مِنَ النَّارِ۔
وَالشِّعْرَ مَزَامِیرُ إبْلِیسَ ، وَالْخَمْرَ جِمَاعُ الإِثْمِ ، وَالنِّسَائَ حَبَائِلُ الشَّیْطَانِ ، وَالشَّبَابَ شُعْبَۃٌ مِنَ الْجُنُونِ ، وَشَرَّ الْمَکَاسِبِ کَسْبُ الرِّبَا ، وَشَرَّ الْمَآکِلِ أکْلُ مَالِ الْیَتِیمِ ، وَالسَّعِیدَ مَنْ وُعِظَ بِغَیْرِہِ ، وَالشَّقِیَّ مِنْ شُقِیَ فِی بَطْنِ أُمِّہِ ، وَإِنَّمَا یَکْفِی أَحَدُکُمْ مَا قَنَعَتْ بِہِ نَفْسُہُ ، وَإِنَّمَا یَصِیرُ إِلَی مَوْضِعِ أَرْبَعۃ أَذْرُعٍ وَالأَمْرُ بِآخِرِہِ ، وَأَمْلَکَ الْعَمَلِ بِہِ خَوَاتِمُہُ ، وَشَرَّ الرِّوَایَا رِوَایَا الْکَذِبِ ، وَکُلَّ مَا ہُوَ آتٍ قَرِیبٌ۔
وَسِبَابَ الْمُؤْمِنِ فُسُوقٌ وَقِتَالَہُ کُفْرٌ ، وَأَکْلَ لَحْمِہِ مِنْ مَعَاصِی اللہِ ، وَحُرْمَۃُ مَالِہِ کَحُرْمَۃِ دَمِہِ ، وَمَنْ یَتَأَلَّی عَلَی اللہِ یُکَذِّبْہُ ، وَمَنْ یَغْفِرْ یَغْفِرَ اللَّہُ لَہُ ، وَمَنْ یَعْفُ یَعْفُ اللَّہُ عَنْہُ ، وَمَنْ یَکْظِمَ الْغَیْظَ یَأْجُرْہُ اللَّہُ ، وَمَنْ یَصْبِرْ عَلَی الرَّزَایَا یُعْقِبْہُ اللَّہُ ، وَمَنْ یَعْرِفَ الْبَلاَئَ یَصْبِرْ عَلَیْہِ ، وَمَنْ لاَ یَعْرِفْہُ یُنْکِرْہُ ، وَمَنْ یَسْتَکْبِرْ یَضَعْہُ اللَّہُ ، وَمَنْ یَبْتَغِ السُّمْعَۃَ یُسَمِّعَ اللَّہُ بِہِ ، وَمَنْ یَنْوِ الدُّنْیَا تُعْجِزْہُ ، وَمَنْ یُطِعَ الشَّیْطَانَ یَعْصِ اللَّہَ ، وَمَنْ یَعْصِ اللَّہَ یَعْذِبْہُ۔
حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے خطبہ مـیں کہا کرتے تھے : سب سے سچی بات کلام اللہ ہے اور مضبوط ترین کڑا کلمۃ التقویٰ ہے اور بہترین ملت، ملت ابراہیمـی ہے اور خوبصورت قصوں مـیں سے یہ قرآن ہے اور خوبصورت راستہ، سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ سب سے زیـادہ شرافت والی بات ذکر اللہ ہے۔ بہترین امور مـیں سے پختہ امر ہے۔ امور مـیں سے بدترین امور بدعات ہیں اور اچھی ہدایت، انبیـاء کی ہدایت ہے۔ سب سے عزت والی موت شہداء کا قتل ہوتا ہے۔ سب سے خطرناک گمراہی، ہدایت کے بعد کی ضلالت ہے۔ بہترین علم وہ ہے جو نفع مند ہو اور بہترین ہدایت وہ ہے جس کی اتباع کی جائے۔ بدترین اندھا پن، دل کا اندھا پن ہے۔ ٢۔ اور اوپر کا ہاتھ، نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے جو چیز کم ہو اور کافی ہو اس چیز سے بہتر ہے جو زیـادہ ہو اور غافل کردے۔ وَنَفْسٌ تُنْجِیہَا خَیْرٌ مِنْ أَمَارَۃٍ لاَ تُحْصِیہَا بدترین ملامت موت کے وقت کی ملامت ہے اور بدترین ندامت، قیـامت کے دن کی ملامت ہے۔ اور بعض لوگ نماز کے لیے آخری وقت مـیں آتے ہیں۔ اور بعض اللہ کا ذکر غافل دل کے ساتھ کرتے ہیں۔ غلطیوں مـیں سے سب سے بڑی غلطی جھوٹی زبان ہے۔ بہترین تونگری، دل کی تونگری ہے۔ بہترین زاد تقویٰ ہے۔ حکمت کا بڑا حصہ، خوفِ خدا ہے۔ دلوں مـیں جو کچھ ڈالا جاتا ہے اس مـیں سے بہترین چیز یقین ہے اور کفر کے بارے مـیں شک اور نوحہ، جاہلیت کا عمل ہے۔ خیـانت (مالِ غنیمت مـیں) جہنم کا انگارہ ہے اور خزانہ جہنم کا داغنا ہے۔ ٣۔ شعر، شیطان کے باجوں مـیں سے ہے۔ ، گناہوں کا مجموعہ ہے۔ عورتیں، شیطان کی رسیـاں ہیں۔ جوانی، جنون کا شعبہ ہے۔ بدترین کمائی، سود کی کمائی ہے اور بدترین کھانا یتیم کا کھانا ہے۔ خوش بخت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے اور بدبخت وہ ہے جو بطن مادر مـیں بدبخت لکھا گیـا ہے۔ تم مـیں سےی کو اتنی مقدار کافی ہے جس پر اس کا نفس قناعت کرلے۔ کیونکہ لوٹنا تو چار بالشت (زمـین) کی طرف ہے۔ معاملہ، آخر کا معتبر ہوتا ہے۔ی شے پر عمل کا دار و مدار خاتمہ پر ہوتا ہے۔ بدترین روایت کرنے والے، جھوٹ کے روایت کرنے والے ہیں اور جو چیز آنے والی ہے وہ قریب ہے۔ ٤۔ مومن کو گالی دینا گناہ ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے اور اس کے گوشت کو کھانا خدا کی نافرمانیوں مـیں سے ہے۔ اس کے مال کی حرمت اس کے خون کی حرمت کی طرح ہے۔ جو اللہ پر جرأت کرتا ہے اللہ اسے جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ اور جو معاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو معاف کردیتے ہیں اور جو درگزر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی درگزر کرتے ہیں اور جو اپنے غصہ کو قابو کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ اجر دیتے ہیں اور جو شخص رزایـا پر صبر کرتا ہے اللہ اس کی اعانت کرتے ہیں اور جو آزمائش کو پہچانتا ہے وہ اس پر صبر کرتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ اس کو ناپسند کرتا ہے اور جو بڑا بنتا ہے اللہ اس کو گرا دیتے ہیں اور جو ناموری چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کرتے ہیں اور جو دنیـا کی چاہت کرتا ہے۔ دنیـا اس کو تھکا دیتی ہے اور جو شیطان کی مانتا ہے خدا کی نافرمانی کرتا ہے اور جو خدا کی نافرمانی کرتا ہے خدا اس کو عذاب دیتا ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد نہم:حدیث نمبر 6177
(۳۷۱۲۱) حَدَّثَنَا حَاتِمٌ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَا العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ۔
حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایـا کہ پہلا سود جسے مـیں معاف کرنے کا اعلان کرتا ہے عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔
ابن ابی شیبہ:جلد نہم:حدیث نمبر 6178
حَدَّثَنَا زَیْدٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَمِدَ اللَّہَ وأَثْنَی عَلَیْہِ بِمَا ہُوَ لَہُ أَہْلٌ ، ثُمَّ قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، إنَّ کُلَّ دَمٍ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَہُوَ ہَدَرٌ، وَأَوَّلُ دِمَائِکُمْ دَمُ إیَاسِ بْنِ رَبِیعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ کَانَ مُسْتَرْضَعًا فِی بَنِی لَیْثٍ فَقَتَلَتْہُ ہُذَیْلٌ ، وَإِنَّ أَوَّلَ رِبًا کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَہُوَ أَوَّلُ رِبًا أَضَعُ {لَکُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ}۔ (عبد بن حمـید ۸۵۸۔ بزار ۱۱۴۱)
حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی وہ حمد وثنا بیـان کی جس کا وہ اہل ہے پھر فرمایـا کہ اے لوگو ! جاہلیت کا ہر خون رائیگاں ہے۔ پہلا خون ایـاس بن ربیعہ بن حارث کا خون ہے۔ وہ بنو لیث مـیں بچے کو دودھ پلواتا تھا اسے ہذیل نے قتل کردیـا۔ اور جاہلیت کا پہلا سود عباس بن عبد المطلب کا سود ہے یہ پہلا سود ہے جس کو مـیں معاف کرتا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارے پورے پورے مال ہیں نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیـا جائے گا۔
ابن ابی شیبہ:جلد نہم:حدیث نمبر 6221
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ الرَّقَاشِیِّ ، عَنْ عَمِّہِ ، قَالَ : کُنْتُ آخِذًا بِزِمَامِ نَاقَۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَوْسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ أَذُودُ عَنْہَا النَّاسَ ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، أَلاَ إنَّ کُلَّ مَالٍ وَمَأْثُرَۃٍ کَانَتْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمِی ہَذِہِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ مَوْضُوعٍ دَمُ رَبِیعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَإِنَّ اللَّہَ قَضَی ، أَنَّ أَوَّلَ رِبًا مَوْضُوعٍ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ {لَکُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ}۔ (احمد ۷۲۔ دارمـی ۲۵۳۴)
حضرت ابو حرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ مـیں نے ایـام تشریق مـیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کی لگام کو تھاما ہوا تھا اور لوگوں کو اس سے دور کررہا تھا۔ آپ نے خطبہ دیـا اور فرمایـا کہ اے لوگو ! ہر مال اور ہر نشان جو جاہلیت مـیں تھا وہ قیـامت تک کے لئے مـیرے قدموں کے نیچے ہے۔ سب سے پہلا خون جو معاف کیـا گیـا وہ ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا خون ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایـا ہے کہ پہلا سود جو معاف ہوا ہے وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔ تمہارے لئے تمہارے پورے پورے مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے نہ تم پر ظلم کیـا جائے گا۔
ابن ابی شیبہ:جلد نہم:حدیث نمبر 6713
حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، سَمِعَ مَالِکَ بْنَ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، یَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا ، إِلاَّ ہَائَ وَہَائَ ، وَالشَّعِیرُ بِالشَّعِیرِ رِبًا ، إِلاَّ ہَائَ وَہَائَ۔
حضرت عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایـا : گندم، گندم کے عوض سود ہے ہاں اگر یوں اور یوں ہوں (یعنی نقد ہو) اور جَو، جَو کے عوض سود ہے ۔ ہاں اگر یوں اور یوں ہو (یعنی نقد ہو)
ابن ابی شیبہ:جلد نہم:حدیث نمبر 6754
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِیسَ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، وَغُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ ، قَالَ : قَالَ یَہُودِیٌّ لِصَاحِبِہِ : اذْہَبْ بِنَا إِلَی ہَذَا النَّبِیِّ ، فَقَالَ صَاحِبُہُ : لاَ تَقُلْ نَبِیٌّ ، فَإِنَّہُ لَوْ قَدْ سَمِعَک کَانَ لَہُ أَرْبَعُ أَعْیُنٍ ، قَالَ : فَأَتَیَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلاَہُ عَنْ تِسْعِ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ ، فَقَالَ : لاَ تُشْرِکُوا بِاللہِ شَیْئًا ، وَلاَ تَزْنُوا ، وَلاَ تَسْرِقُوا ، وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلاَّ بِالْحَقِ ، وَلاَ تَمْشُوا بِبَرِیئٍ إِلَی ذِی سُلْطَانٍ فَیَقْتُلَہُ ، وَلاَ تَسْحَرُوا ، وَلاَ تَأْکُلُوا الرِّبَا ، وَلاَ تَقْذِفُوا الْمُحْصَنَۃَ ، وَلاَ تُوَلُّوا لِلْفِرَارِ یَوْمَ الزَّحْفِ ، وَعَلَیْکُمْ خَاصَّۃً یَہُودُ : لاَ تَعْدُوا فِی السَّبْتِ ، قَالَ : فَقَبَّلُوا یَدَیْہِ وَرِجْلَیْہِ ، وَقَالُوا : نَشْہَدُ أَنَّک نَبِیٌّ حَقٌ ، قَالَ : فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُونِی ؟ قَالُوا : إِنَّ دَاوُدَ دَعَا لاَ یَزَالُ فِی ذُرِّیَّتِہِ نَبِیٌّ ، وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ تَقْتُلَنَا یَہُودُ۔ (احمد ۲۳۹۔ حاکم ۱۰)
حضرت صفوان بن عسال روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا۔ ہمـیں اس نبی کے پاس لے چلو ! اس کے ساتھی نے کہا : نہیں ! نبی مت کہو کیونکہ اگر انہوں نے تجھے سُن لیـا تو ان کی چار آنکھیں ہوجائیں گی۔ راوی کہتے ہیں : وہ دونوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت مـیں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نو کھلی نشانیوں کے بارے مـیں سوال کیـا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایـا۔ تم اللہ کے ساتھی کو شریک نہ ٹھہرائو اور زنا نہ کرو اور چوری نہ کرو اور اس جان کو قتل نہ کرو جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیـا ہے مگر حق کی وجہ سے ۔ اوری قوت والے کے پاس بےگناہ کی چغلی نہ کرو کہ وہ اس بےگناہ کو قتل کر دے اور جادو نہ کرو۔ اور سود نہ کھائو۔ اور پاکدامن عورت پر تہمت زنی مت کرو اور جنگ کے دن بھاگنے کے لئے پیٹھ مت پھیرو۔ اور اے خواص یہود تم پر یہ بھی لازم ہے کہ ہفتہ کے دن مـیں تعدی نہ کرو۔ راوی کہتے ہیں : یہودیوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ، پائوں چومے اور عرض کرنے لگے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی برحق ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایـا : تم لوگوں کو مـیری اتباع سے کیـا چیز مانع ہے ؟ کہنے لگے : حضرت دائود نے دعا مانگی تھی کہ ان کی ذریت مـیں مسلسل نبوت رہے ۔ اور ہمـیں اس بات کا خوف ہے کہ ہمـیں یہودی قتل کردیں گے۔
ابن ابی شیبہ:جلد نہم:حدیث نمبر 6785
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنْ أَبِی الصَّلْتِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رَأَیْتُ لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِی ، لَمَّا انْتَہَیْنَا إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ ، فَنَظَرْتُ فَوْقِی فَإِذَا أَنَا بِرَعْدٍ وَبَرْقٍ وَصَوَاعِقَ ، قَالَ : وَأَتَیْتُ عَلَی قَوْمٍ بُطُونُہُمْ کَالْبُیُوتِ ، فِیہَا الْحَیَّاتُ تُرَی مِنْ خَارِجِ بُطُونِہِمْ ، فَقُلْتُ : مَنْ ہَؤُلاَئِ یَا جِبْرِیلُ ؟ قَالَ ، ہَؤُلاَئِ أَکَلَۃُ الرِّبَا ، فَلَمَّا نَزَلْتُ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا ، نَظَرْت أَسْفَلَ شَیئٍ فَإِذَا بِرَہْجٍ وَدُخَانٍ وَأَصْوَاتٍ ، فَقُلْتُ : مَا ہَذَا یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: ہَذِہِ الشَّیَاطِینُ یَحُومُونَ عَلَی أَعْیُنِ بَنِی آدَمَ، لاَ یَتَفَکَّرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ، وَلَوْلاَ ذَاکَ لَرَأَوْا الْعَجَائِبَ۔ (ابن ماجہ ۲۲۷۳۔ احمد ۳۵۳)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایـا : ” جس رات مجھے سیر کروائی گئی ۔ مـیں نے دیکھا کہ جب ہم ساتویں آسمان تک پہنچے تو مـیں نے اپنے اوپر کو نظر اٹھائی تو مجھے گرج، بجلی اور کڑک دکھائی دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ مـیں ایک گروہ کے پاس آیـا ان کے پیٹ گردنوں کی طرح تھے اور ان مـیں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے۔ مـیں نے پوچھا : اے جبرائیل ! یہلوگ ہیں ؟ جبرائیل نے کہا : یہ سود خور لوگ ہیں۔ پھر جب مـیں آسمان دنیـا کی طرف اترا تو مـیں نے نیچے دیکھا۔ مجھے گرد، دھواں اور آوازیں سنائی دیں۔ مـیں نے پوچھاـ: اے جبرائیل ! یہ کیـا ہے ؟ جبرائیل نے کہا : یہ شیـاطین ہیں جو بنی آدم کی آنکھوں کو فریب دیتے ہیں۔ وہ آسمانوں اور زمـین کی نشانیوں مـیں تفکر نہیں کرتے۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں تو بنی آدم کو عجائبات دکھائی دیتے۔
. قد ووزن جی جی حدید . قد ووزن جی جی حدید[Musannaf Ibne abi shayba – GiveUp RIBA قد ووزن جی جی حدید]